قرآن عظیم الشان کی گستاخی اور یورپ کی اسلام دشمنی، پاکستان اور امتِ مسلمہ کے دیگر سربراہان کی اقوامِ مغرب کی غلامی کا نتیجہ ہے
افسوس کہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے سربراہان اس وقت تک عالمی فورم پر اسلام کی ترجمانی کرنے اور اقوام یورپ کی عالمی دہشت گردی رکوانے میں بالکل ناکام لبیک پاکستان اسلام آباد زون کے زیرِ اہتمام تحفظِ قرآن مارچ کا انعقاد کیا گیا جو تحریک لبیک پاکستان، اسلام آباد زون کے مرکزی آفس ترلائی کلاں (پراچہ چوک) سے شروع ہو کر اسلام آباد پریس کلب ایف 6/2 کے سامنے اختتام پذیر ہوا۔ پریس کلب کے سامنے شرکائے مارچ سے خطاب کرتے ہوئے تحریک لبیک پاکستان اسلام آباد کے ناظمِ اعلیٰ چوہدری رضوان احمد سیفی نے شدید الفاظ میں سویڈن میں ہونے والی قرآن عظیم الشان کی گستاخی کی مذمت کی اوراسے عالمی دہشت گردی قرار دیا۔ سویڈن میں قرآن عظیم الشان کی گستاخی اور باقی یورپی ممالک میں ناموس رسالت ﷺ و شعائر اسلام پر حملے کا مقصد امتِ مسلمہ کی دل آزاری اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کر کے مسلم معاشروں میں اضطرابی کیفیت پیدا کرنا ہے۔ مسلمانوں نے بلاواسطہ یورپی اقوام پر 800 سال سے زائد حکومت کی لیکن اہلِ یورپ کوئی ایک بھی توہین مذہب کا واقعہ یورپ کی اسلامی تاریخ میں ثابت نہیں کر سکتے۔ یورپ کو مسلمانوں سے آزاد ہوئے ابھی ایک صدی گزری لیکن اہلِ یورپ کے مذہبی تعصب نے گزشتہ بیسویں صدی میں 10 کروڑ 80 لاکھ لوگ قتل کئے ہیں؛ جبکہ حالیہ صدی کے اندر افغانستان، شام، عراق، مصر، لیبیا، فلسطین، کشمیر اور یمن میں 50 لاکھ سے زائد مسلمانوں کا بلا واسطہ یا بلواسطہ قتل عام کیا جا چکا ہے۔ لیکن اہلِ یورپ کے اسلام تعصب کی تشفی پھر بھی نہیں ہوئی اور اب وہ بلاواسطہ قرآن اور صاحبِ قرآن ﷺ کی ذات اقدس کو نشانہ بنانا شروع کر چکے ہیں۔ چوہدری رضوان احمد سیفی نے کہا قرآن عظیم الشان کی گستاخی اور یورپ کی اسلام دشمنی، امتِ مسلمہ کے سربراہان کی اقوامِ مغرب کی غلامی کا نتیجہ ہے۔ افسوس کہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے سربراہان اس وقت تک عالمی فورم (اقوامِ متحدہ، یورپی پارلیمان وغیرہ) پر گزشتہ ایک صدی سے اسلام کی مؤثر انداز میں ترجمانی کرنے میں بالکل ناکام رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے اہلِ مغرب نے آزادی اظہار رائے کی آڑ میں ناموسِ رسالت ﷺ پر حملہ اور قرآن عظیم الشان کی بے حرمتی کو اپنے ملکی قوانین میں جائز قرار دے دیا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اقوامِ متحدہ میں جتنے بھی اسلامی ملک رکن ہیں وہ پورے دباؤ کے ساتھ یہ مؤقف اپناتے کہ ناموسِ رسالت ﷺ پر حملہ یا قرآن عظیم الشان کی گستاخی کسی صورت بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔ اقوامِ متحدہ اور یورپی یونین مغربی ممالک پر پورا دباؤ ڈالے کہ وہ ایسے انتہا پسندانہ، دہشتگررد، قبیح اور بے ہودہ قوانین کو اپنے ملکی قوانین سے فی الفور نکال دیں جن سے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی آزاری ہوتی ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو تمام اسلامی ممالک اقوامِ متحدہ کی رکنیت سے دست برداری کا فی الفور اعلان کریں اور اہلِ مغرب سے اپنا ہر قسم کا سفارتی و تجارتی رابطہ ختم کریں اور اہلِ مغرب کو اپنا بد ترین دشمن قراردیں۔ جب تک یہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے اہلِ مغرب کے غلام حکمران اس طرح کا واضح اور دو ٹوک مؤقف نہیں اپنائیں گے اس وقت تک امتِ مسلمہ ہر آئے دن اہلِ مغرب کی طرف سے دی جانے والی اس طرح کی اذیت سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتی۔ اللہ عز و جل کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ مسلمانوں میں دینی غیرت موجود ہے جس کی بنا پر وہ اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لئے پر امن طور پر اپنے اپنے ممالک میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے لئے میدان میں نکل آتے ہیں۔ عوام اس سے زیادہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ لیکن جن کے پاس قوتِ نافذہ ہے یا مغرب کو جواب دینے کا فورم موجود ہے وہ اہلِ مغرب کی غلامی اور دینی غیرت سے بالکل عاری ہو چکے ہیں۔ غلاموں کی طرح اسمبلیز میں مذمتی قرارداد پیش کر کے یا مذمتی بیان ریکارڈ کروا کر اپنے آپ کو بری الذمہ تصور کر لیتے ہیں۔ جبکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ یہ عند اللہ مجرم ہیں اور رسول اللہ ﷺ اور آپ کی امت کے سامنے بھی مجرم ہیں اور تاریخ اسلام میں بھی ان زائرین حریم مغرب کو بد ترین الفاظ میں یاد رکھا جائے گا کیونکہ امت مسلمہ کی سربراہی کرتے ہوئے یہ اللہ عز و جل کے دین اورتاجدارِ ختم النبوۃ ﷺ کی وفاداری کے تقاضے پورے نہیں کر پا رہے، جیسے امتِ مسلمہ کے اسلاف سربراہان نے پورے کئے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ صلاح الدین ایوبی، نور الدین زنگی، سلطان رکن الدین بیبرس اور دیگر کثیر سلاطین ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اسلام، ناموسِ رسالت ﷺ اور شعار اسلام کے تقدس کی تحفیظ کے لئے اپنے دور کی عالمی قوتوں کو للکارا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اور عالمِ اسلام کی عوام بھی اپنی ترجیحات اور طرزِ عمل کا جائزہ لے اور ان مغرب کے غلام دین بیزار حکمرانوں کو اپنے ہی ووٹ سے اپنے ممالک پر مسلط کر کے ان کے ظلم، کرپشن، دین بیزاری اور کفر نوازی جیسے قبیح جرائم میں شراکت داری نہ کرے۔