زمری ہسپتال کے اناڑی ڈاکٹروں نے شہری کی جان لے لی، مقدمہ درج، ڈاکٹر روپوش
جی ایٹ میں واقع “دی ہاسپٹل ” زمری آرتھوپیڈک کے ڈاکٹر فرید اللہ خان زمری نے ٹخنے کی عام سرجری کے مریض محمد ساجد کو اوور ڈوز دیکر موت کی نیند سلا دیا
ورثاء کو کئی گھنٹے تک اصل حقائق سے لاعلم رکھا گیا اور انہیں جھوٹی تسلیاں دیتا رہا، ہسپتال کی بھاری فیسیں بٹورنے کے بعد ہارٹ اٹیک کا بتاکر لاش حوالے کی گئی
متوفی محمد ساجد بالکل صحت مند تھے، کبھی دل کے مریض نہیں رہے، ٹخنے کی عام سی سرجری کے لئے ڈاکٹر فرید اللہ خان زمری نے اپنے ہسپتال داخل کیا، ورثاء
ڈاکٹروں نے آپریشن کی فیس 2 لاکھ پچاس ہزار روپے بھی بٹور لئے، میت حوالے کرنے کے بعد ڈاکٹرز اور عملہ روپوش ہوگئے،ورثاء تھانہ کراچی کمپنی میں مقدمہ درج
اسلام آباد( شبیرسہام سے)تھانہ کراچی کمپنی کے علاقہ جی ایٹ میں واقع پرائیویٹ ہاسپٹل کے اناڑی ڈاکٹروں نے ٹخنے کی عام سرجری کے مریض کو آپریشن تھیٹر میں لے جانے کے بعد مبینہ طور پر غلط علاج کے دوران اس کی جان لے لی۔ مسیحا کے روپ میں موجود درندہ نما ڈاکٹروں نے 54 سالہ شہری کو موت کی نیند سلانے کے بعد ورثاء کو کئی گھنٹے تک اصل حقائق سے لاعلم رکھا اور انہیں جھوٹی تسلیاں دیتے رہے۔ اس دوران ان سے ہسپتال کی بھاری فیسیں بٹوری گئیں۔ پھر لاش حوالے کرکے بتایا گیا کہ مریض ہارٹ اٹیک سے انتقال کر گیا ہے۔ متاثرہ خاندان کی درخواست پر تھانہ کراچی کمپنی پولیس نے واقعہ کا مقدمہ درج کرلیا ہے جبکہ دوسری طرف تمام ذمہ دار ڈاکٹرز روپوش ہوگئے ہیں۔ یہ افسوسناک اور دلخراش واقعہ 12 جولائی 2023ء کو اسلام آباد کے سیکٹر جی ایٹ مرکز میں واقع پرائیویٹ ہسپتال “دی ہاسپٹل ” زمری آرتھوپیڈک ہسپتال میں پیش آیا۔ معلوم ہوا ہے کہ فارماسیوٹیکل کمپنی کے سینئر ملازم 54 سالہ محمد ساجد نامی شہری کو 11 جولائی کو دائیں پاؤں کے ٹخنے کے عام سے آپریشن کے لئے زمری آرتھوپیڈک ہسپتال جی ایٹ مرکز میں داخل کرایا گیا۔ اگلے روز 12 جولائی کی صبح ساڑھے گیارہ بجے مریض کو آپریشن تھیٹر میں منتقل کیا گیا۔ ڈیڑھ گھنٹے کے بعد 12 بج کر 59 منٹ پر ڈاکٹر فرید اللہ خان زمری کے پرسنل اسسٹنٹ نے مریض کے ورثاء کو سرجری روم میں بلایا۔ پھر پانچ منٹ بعد ڈاکٹر فرید اللہ خان زمری نے ورثاء کو بتایا کہ محمد ساجد کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے لیکن ساتھ ہی ورثاء کو جھوٹی تسلیاں دیتے رہے۔ ورثاء نے آپریشن تھیٹر میں جاکر مریض کو دیکھنے کی کوشش کی تو انہیں روک دیا گیا۔ اس دوران ایک چھوٹے سے کمرے۔ میں مریض کو منتقل کیا گیا۔ ورثاء کے مطابق مریض کی آنکھوں پر ٹیپ لگی ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر مسلسل جھوٹ بولتے رہے اور مریض کی حالت کے بارے میں غلط معلومات دیتے رہے۔ ورثاء کے مطابق ہسپتال میں کوئی قابل ڈاکٹر موجود نہ تھا جو مریض کو فوری دیکھتے۔ دن تقریباً دو بج کر پانچ منٹ پر ہسپتال انتظامیہ نے ڈاکٹر عمران کو فون کیا جو اس ساری صورتحال کے دو گھنٹے بعد 2 بج کر 35 منٹ پر ہسپتال پہنچا۔ اس دوران ہسپتال کے ان جلاد نما ڈاکٹروں نے آپریشن کی فیس 2 لاکھ پچاس ہزار روپے بھی بٹور لئے اور لاش حوالے کرتے ہوئے بتایا کہ مریض ہارٹ اٹیک کے باعث انتقال کر گیا ہے۔ مدعی مقدمہ عامر حبیب منہاس نے بتایا کہ متوفی محمد ساجد میرے بہنوئی تھے۔ وہ صحت مند تھے اور کبھی بھی وہ دل کے مریض نہیں رہے۔ ٹخنے کی عام سی سرجری کے لئے ڈاکٹر فرید اللہ خان زمری نے اپنے ہسپتال داخل کیا اور غلط ٹریٹمنٹ، لاپرواہی، بے ہوشی کی اوور ڈوز دوا اور ایکسپائرڈ انجیکشن کا استعمال کرکے ان کی جان لے لی۔ اس قتل میں ڈاکٹر زمری کے علاوہ ڈاکٹر عبید اور ڈاکٹر مختیار سمیت دیگر عملہ بھی شامل ہے۔ متوفی ساجد کے بیٹے حمزہ کو ڈاکٹروں نے یہ اطلاع دی کہ مریض کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے مگر حالت خطرے سے باہر ہے تو حمزہ نے اصرار کیا کہ وہ اپنے والد کو بہتر سہولتوں والے کسی بڑے ہسپتال لے جانا چاہتا ہے جس پر ڈاکٹروں نے اس کی اجازت نہ دی ۔ اس صورت حال میں اہلخانہ کو مسلسل انتظار میں رکھ کر دھوکہ دیا جاتا رہا۔ حالانکہ متوفی ساجد ان ڈاکٹروں کی عدم توجہی ، لاپرواہی اور غیر ذمہ داری کے باعث پہلے ہی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ متاثرہ خاندان کی درخواست پر تھانہ کراچی کمپنی پولیس نے وقوعہ کے نویں روز 21 جولائی کو مقدمہ نمبر 824/23 بجرم 322 اور 34 کے تحت درج کرلیا ہے۔ تاہم تمام ڈاکٹرز وقوعہ کے روز سے ہی روپوش ہوگئے ہیں۔