120

تھانہ گولڑہ پولیس کے تشدد سے شہری جاں بحق ، جسم پر تشدد کے نشانات

پولیس ٹارچر سے 22 سالہ نوجوان جاں بحق ، جسم پر تشدد کے 22 نشانات

گولڑہ پولیس نے بائیس سالہ عنصر حیات نامی نوجوان پر بیہمانہ تشدد کیا،

اسلام آباد(قوی اخبار )تھانہ گولڑہ پولیس کا نوجوان کو مبینہ طور پر بدترین تشدد کا نشانہ بناکر موت کی نیند سلا دیا مقتول کے بھائی کا الزام میرے بھائی کی موت کے تین روز بعد پولیس نے اطلاع دی اور واقعہ کو پولیس مقابلہ ظاہر کیا۔ بھائی کے جسم پر تشدد کے 22 نشانات موجود تھے۔ پولیس نے پمز ہسپتال کے ڈاکٹر کی ملی بھگت سے پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بھی گڑبڑ کی اور وجہ موت واضح نہ کیا۔ مقتول نوجوان کے ورثاء نے انصاف کے لئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں رٹ دائر کرتے ہوئے واقعہ کو قتل قرار دیا اور مقتول کا دوبارہ پوسٹ مارٹم کروانے اور میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا مطالبہ کیا۔ جس پر عدالت نے آج بروز جمعرات ایس ایچ او تھانہ گولڑہ کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا ہے۔ تحصیل لالیاں ضلع چنیوٹ کے رہائشی محنت کش منظر حیات نے بتایا کہ میرا چھوٹا بھائی 22 سالہ عنصر حیاتِ تین ماہ قبل محنت مزدوری کی غرض سے اسلام آباد آیا ہوا تھا۔ 16 اکتوبر 2023ء بوقت دن 1 بج کر 32 منٹ پر تھانہ گولڑہ میں تعینات اے ایس آئی نذیر احمد نے مجھے فون کرکے بتایا کہ تمہارا بھائی عنصر حیات پولیس مقابلے میں مارا گیا ہے اور اس کی ڈیڈ باڈی پمز ہسپتال سے وصول کرلو۔ جب میں پمز ہسپتال پہنچا تو میں نے اپنے بھائی کی لاش دیکھی تو جسم پر تشدد زدہ نشانات تھے۔ میں نے اے ایس آئی نذیر سے پوچھاکہ یہ تشدد کے نشانات کیسے آئے ؟ تو وہ کچھ بھی بتانے سے انکاری ہوا اور کہاکہ بس تم پوسٹ مارٹم کرواکر اپنے بھائی کی لاش لے جاؤ۔ جب میں نے کہاکہ میں پولیس کے خلاف قانونی کارروائی کروں گا تو وہ لاش حوالے کرنے سے انکار کرتا رہا۔ جس سے مجھے قوی یقین ہے کہ میرے بھائی کو پولیس نے خفیہ جگہ رکھ کر اس پر تشدد کرتے رہے۔ جس سے میرے بھائی کی موت واقع ہوئی۔ میرے بھائی کی موت میں سب انسپکٹر ظفر تارڑ اور اے ایس آئی نذیر احمد ملوث ہے۔ پمز ہسپتال کے مرچری ریکارڈ کے مطابق 13 اکتوبر کی صبح نو بجے اے ایس آئی نذیر احمد مقتول نوجوان کی لاش لے کر پمز ہسپتال آیا جبکہ ورثاء کو 16 اکتوبر کو فون کرکے آگاہ کیا۔ پولیس نے اپنی نگرانی میں اپنے مرضی کے ڈاکٹر کے ذریعے سازباز کرکے مقتول کا پوسٹ مارٹم کرایا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں مقتول کے جسم پر زخم کے 22 نشانات کا تو ذکر ہے لیکن وجہ موت واضح نہیں کی گئی اور نہ ہی رپورٹ میں اس بات کا ذکر موجود ہے کہ زخم کے یہ نشانات کس طرح آئے ؟ پولیس اور پمز ہسپتال کے مذکورہ ڈاکٹر نے اس قتل کو چھپانے کی کوشش کی ہے۔ ورثاء نے انصاف کے لئے اسلام باد ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔ بدھ یکم نومبر 2023ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں مقتول عنصر حیات کے بھائی منظر حیات کی اپنے بھائی کے پوسٹ مارٹم اور میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے مقتول کے بھائی منظر حیات کی درخواست پر سماعت کی۔ اس موقع پر وکیل درخواست گزار خورشید احمد بلوچ عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ تھانہ گولڑہ پولیس نے جواں سالہ عنصر حیات کو تشدد کرکے مار ڈالا اور پولیس مقابلے کا رنگ دیا۔ درخواست گزار کا بھائی اسلام آباد میں ملازمت کرتا تھا۔ پولیس نے گاڑی سے ہٹ کرکے مارا اور جسم پر تشدد کے 22 نشانات ہیں۔ جو پوسٹ مارٹم ہوا وہ پولیس کسٹڈی میں ہوا جس پر ہمیں یقین نہیں۔ پولیس آفیسر نے خود کال کرکے کہا آپ کا بھائی پولیس مقابلے میں مارا گیا ہے۔جب مقتول کا بھائی پمز پہنچا تو تشدد شدہ لاش دیکھی۔ پولیس نے ساز باز سے پوسٹ مارٹم کروالیا لیکن درخواست گزار کو اس پوسٹ مارٹم رپورٹ پر یقین نہیں ۔عدالت دوبارہ پوسٹ مارٹم کرواکے نیا میڈکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم جاری کرے اور ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا حکم بھی جاری کرے ۔عدالت نے ایس ایچ او تھانہ گولڑہ کو طلب کرتے ہوئے سماعت جمعرات 2 نومبر تک ملتوی کردی۔مذکورہ حوالے سے ترجمان اسلام آباد پولیس یا تھانہ گولڑہ پولیس کا
موقف سردست سامنے نہیں آیا اگر موقف دیا جائے تو اسکو خبر کا حصہ بنایا جائے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں